اطبع هذه الصفحة


جو شخص قرآن سے مستفید ہونا چاہتا ہو وہ تھوڑا سا وقت نکال کر یہ تحریر ضرور پڑھے

تالیف:
فضيلۃ الشيخ ابراهيم محمد الهلالي


اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر مومن مردو عورت کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ وہ قرآن مجید سے استفادہ کرے، لیکن بیشتر لوگ اس سوال کے پیچ وخم میں الجھ کر رہ جاتے ہیں کہ اس کاراستہ کیا ہے؟ کوئی ہے جو ایسے عمل کی رہنمائی کرے جس سے یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے؟ ایسے لوگوں سے ہم عرض کرتے ہیں کہ اللہ تعالی جس کے لیے آسان کردے اس کے لیے یہ راستہ آسان ہے، ہم آپ سے عرض کرتے ہیں اور اللہ ہی توفیق دینے والا ہے کہ:

کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھامے رہیں ، ان میں جو اوامر ونواہی وارد ہوئے ہیں، ان پر کاربند رہیں، کلام الہی کو تاویل کرنے والو ں کی تاویل اور گمراہ ہونے والوں کی گمراہی کے سبب نہ ٹھکرائیں:
(هُوَ ٱلَّذِى أَنزَلَ عَلَيْكَ ٱلْكِتَـٰبَ مِنْهُ آيَـٰتٌ مُّحْكَمَـٰتٌ هُنَّ أُمُّ ٱلْكِتَـٰبِ وَأُخَرُ مُتَشَـٰبِهَـٰتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ فى قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَـٰبَهَ مِنْهُ ٱبْتِغَاء ٱلْفِتْنَةِ وَٱبْتِغَاء تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلاَّ ٱللَّهُ وَٱلرسِخُونَ فِي ٱلْعِلْمِ يَقُولُونَ ءامَنَّا بِهِ كُلٌّ مّنْ عِندِ رَبّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ ٱلالْبَـٰبِ) [آل عمران:7].
ترجمہ: وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اوربعض متشابہ آیتیں ہیں۔ پس جن کے دلوں میں کجی ہے وه تواس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے، حالانکہ ان کے حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا اور پختہ ومضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں۔
چنانچہ جب اللہ پاک منع کرتے ہوئے فرماتا ہے: (يَـٰأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءامَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ ٱلْيَهُودَ وَٱلنَّصَـٰرَىٰ أَوْلِيَاء) [المائدة:51]
ترجمہ: اے ایمان والو! تم یہود ونصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔
تو ہم کہتے ہیں کہ: ہم نے سنا اور اطاعت کی ، اور ہم جان جاتے ہیں کہ اللہ کے علاوہ کسی اور سے دوستی کرنے کی مثال مکڑی کی سی ہے جو ایک (کمزور سا) گھر بناتی ہے ، اللہ پاک فرماتا ہے:
(مَثَلُ ٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُواْ مِن دُونِ ٱللَّهِ أَوْلِيَاء كَمَثَلِ ٱلْعَنكَبُوتِ ٱتَّخَذَتْ بَيْتاً وَإِنَّ أَوْهَنَ ٱلْبُيُوتِ لَبَيْتُ ٱلْعَنكَبُوتِ لَوْ كَانُواْ يَعْلَمُونَ) [العنكبوت:41].
ترجمہ: جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کارساز مقرر کر رکھے ہیں ان کی مثال مکڑی کی سی ہے کہ وه بھی ایک گھر بنا لیتی ہے، حالانکہ تمام گھروں سے زیاده بودا گھر مکڑی کا گھر ہی ہے، کاش! وه جان لیتے۔
جب اللہ پاک حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے: (إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ ٱللَّهُ وَرَسُولُهُ وَٱلَّذِينَ ءامَنُواْ ٱلَّذِينَ يُقِيمُونَ ٱلصَّلوٰةَ وَيُؤْتُونَ ٱلزَّكَوٰةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ)[المائدة:55]
ترجمہ: تمہارے دوست تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے، وہ جو نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہ جھکنے والے ہیں۔
تو ہم کہتے ہیں کہ : ہم نے سنا اور اطاعت کی۔
جب اللہ پاک خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے: (يٰأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءامَنُواْ إِن تَنصُرُواْ ٱللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبّتْ أَقْدَامَكُمْ * وَٱلَّذِينَ كَفَرُواْ فَتَعْساً لَّهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمَـٰلَهُمْ) [محمد:7، 8]
ترجمہ: اے ایمان والو! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وه تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا*اور جو لوگ کافر ہوئے انہیں ہلاکی ہو اللہ ان کے اعمال غارت کردے گا۔
تو ہم کہتے ہیں کہ اے اللہ ! ہم نے ایمان لایا، یقین کیا اور سچ جانا ، اور اللہ کے کلمات کو کوئی بدلنے والا نہیں۔
جب ہم اللہ پاک کا وہ کلام سنتے ہیں جس میں جھٹلانے والی سابقہ قوموں کے تئیں اللہ کی سزاؤں کا ذکر ہے: (فَكُلاًّ أَخَذْنَا بِذَنبِهِ فَمِنْهُم مَّن أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِباً وَمِنْهُمْ مَّنْ أَخَذَتْهُ ٱلصَّيْحَةُ وَمِنْهُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ ٱلأرْضَ وَمِنْهُمْ مَّنْ أَغْرَقْنَا وَمَا كَانَ ٱللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَـٰكِن كَانُواْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ)[العنكبوت:40]
ترجمہ: پھر تو ہر ایک کو ہم نے اس کے گناه کے وبال میں گرفتار کر لیا، ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کا مینہ برسایا اور ان میں سے بعض کو زور دار سخت آواز نے دبوچ لیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے ڈبو دیا، اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے بلکہ یہی لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔
تو ہم کہتے ہیں کہ اے اللہ اے عظیم وبرتر (پالنہار)! ہمیں اپنے عذاب سے محفوظ رکھ ، اور ہم جان جاتے ہیں کہ : قیامت تک جھٹلانے والی جتنی بھی قومیں آئیں گی، سب کی سزا یہی ہوگی، اللہ پاک کا فرمان ہے: (دَمَّرَ ٱللَّهُ عَلَيْهِمْ وَلِلْكَـٰفِرِينَ أَمْثَـٰلُهَا) [محمد:10]
ترجمہ: اللہ نے انہیں ہلاک کر دیا اور کافروں کے لئے اسی طرح کی سزائیں ہیں۔
جب ہم اللہ پاک کا یہ فرمان سنتے ہیں کہ اللہ نے ان مومنوں کو نجات دی جو اپنے رسولوں کے پیروکار تھے تو اپنے رب اور اپنے دین کے تئیں ہمارا فخر مزید بڑھ جاتا ہے، اپنے منہج پر ثابت قدم رہنے کا حوصلہ فزوں تر ہوجاتا ہے، خواہ غلبہ جمانے والے غالب کیوں نہ ہوتے رہیں اور سرکشی کرنے والے سرکشی کیوں نہ کرتے رہیں: (وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا ٱلْمُرْسَلِينَ * إِنَّهُمْ لَهُمُ ٱلْمَنصُورُونَ * وَإِنَّ جُندَنَا لَهُمُ ٱلْغَـٰلِبُونَ)[الصافات:171-173]
ترجمہ: اور البتہ ہمارا وعده پہلے ہی اپنے رسولوں کے لئے صادر ہو چکا ہے * کہ یقیناً وه ہی مدد کیے جائیں گے* اور ہمارا ہی لشکر غالب (اور برتر) رہے گا۔
(إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَٱلَّذِينَ ءامَنُواْ فِى ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ ٱلأَشْهَـٰدُ) [غافر:51].
ترجمہ: یقیناً ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد زندگانیٴ دنیا میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے۔
جب ہم قرآن کی ایسی آیت سنتے ہیں جس میں کافروں کی سزا بیان کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ جہنم کے اندر دردناک عذاب سے دوچار ہوں گے تو ہم ان کے اعمال کو انجام دینے اور ان کے مذموم گناہوں کا ارتکاب کرنے سے باز رہتے ہیں: (أَذٰلِكَ خَيْرٌ نُّزُلاً أَمْ شَجَرَةُ ٱلزَّقُّومِ * إِنَّا جَعَلْنَـٰهَا فِتْنَةً لّلظَّـٰلِمِينَ * إِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِى أَصْلِ ٱلْجَحِيمِ * طَلْعُهَا كَأَنَّهُ رُءوسُ ٱلشَّيَـٰطِينِ * فَإِنَّهُمْ لاَكِلُونَ مِنْهَا فَمَالِئُونَ مِنْهَا ٱلْبُطُونَ * ثُمَّ إِنَّ لَهُمْ عَلَيْهَا لَشَوْباً مِنْ حَمِيمٍ * ثُمَّ إِنَّ مَرْجِعَهُمْ لإِلَى ٱلْجَحِيمِ * إِنَّهُمْ أَلْفَوْاْ ءابَاءهُمْ ضَالّينَ * فَهُمْ عَلَىٰ ءاثَارِهِمْ يُهْرَعُونَ * وَلَقَدْ ضَلَّ قَبْلَهُمْ أَكْثَرُ ٱلاْوَّلِينَ * وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا فِيهِمْ مُّنذِرِينَ * فَٱنظُرْ كَيْفَ كَانَ عَـٰقِبَةُ ٱلْمُنذَرِينَ) [الصافات:62-73].
ترجمہ: کیا یہ مہمانی اچھی ہے یا سینڈھ (زقوم) کا درخت؟*جسے ہم نے ظالموں کے لئے سخت آزمائش بنا رکھا ہے* بے شک وه درخت جہنم کی جڑ میں سے نکلتا ہے* جس کے خوشے شیطانوں کے سروں جیسے ہوتے ہیں * (جہنمی) اسی درخت سے کھائیں گے اور اسی سے پیٹ بھریں گے* پھر اس پر گرم جلتے جلتے پانی کی ملونی ہوگی * پھر ان سب کا لوٹنا جہنم کی (آگ کے ڈھیرکی) طرف ہوگا * یقین مانو! کہ انہوں نے اپنے باپ دادا کو بہکا ہوا پایا* اور یہ انہی کے نشان قدم پر دوڑتے رہے * ان سے پہلے بھی بہت سے اگلے بہک چکے ہیں *جن میں ہم نے ڈرانے والے (رسول) بھیجے تھے۔
جب ہم قرآن کی ایسی آیت سنتے ہیں جس میں سچے مومنوں کا انجام بتایا گیا اور بیان کیاگیا ہے کہ وہ ہمیشگی کی نعمت میں ہوں گے تو ہمارے اندر جنت کی رغبت وچاہت بڑھ جاتی ہے ، رب تعالی سے ملنے کا شوق فزوں تر ہوجاتا ہے ، جس کے نتیجہ میں ہمارے اندر اعمال کی اصلاح کا داعیہ پیدا ہوتا ہے، امید میں قوت آتی ہے اور گمراہوں کے راستہ سے ہم مزید دور ہوجاتے ہیں: (وَمَا تُجْزَوْنَ إِلاَّ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ * إِلاَّ عِبَادَ ٱللَّهِ ٱلْمُخْلَصِينَ * أُوْلَـئِكَ لَهُمْ رِزْقٌ مَّعْلُومٌ * فَوٰكِهُ وَهُم مُّكْرَمُونَ * فِى جَنَّـٰتِ ٱلنَّعِيمِ * عَلَىٰ سُرُرٍ مُّتَقَـٰبِلِينَ * يُطَافُ عَلَيْهِمْ بِكَأْسٍ مّن مَّعِينٍ * بَيْضَاء لَذَّةٍ لّلشَّـٰرِبِينَ * لاَ فِيهَا غَوْلٌ وَلاَ هُمْ عَنْهَا يُنزَفُونَ * وَعِندَهُمْ قَـٰصِرٰتُ ٱلطَّرْفِ عِينٌ * كَأَنَّهُنَّ بَيْضٌ مَّكْنُونٌ)[الصافات:39-49].
ترجمہ: تمہیں اسی کا بدلہ دیا جائے گا جو تم کرتے تھے*مگر اللہ تعالیٰ کے خالص برگزیده بندے * انہیں کے لئے مقرره روزی ہے*(ہر طرح کے) میوے، اور وه باعزت واکرام ہوں گے * نعمتوں والی جنتوں میں *تختوں پر ایک دوسرے کے سامنے (بیٹھے) ہوں گے* جاری شراب کے جام کا ان پر دور چل رہا ہوگا * جو صاف شفاف اور پینے میں لذیذ ہوگی * نہ اس سے درد سر ہو اور نہ اس کے پینے سے بہکیں *اور ان کے پاس نیچی نظروں، بڑی بڑی آنکھوں والی (حوریں) ہوں گی* ایسی جیسے چھپائے ہوئے انڈے۔
میرے احباب گرامی! اللہ تعالی سب سے بڑا ہے : (تَبَارَكَ ٱلَّذِى نَزَّلَ ٱلْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَـٰلَمِينَ نَذِيراً) [الفرقان:1].
ترجمہ: بہت بابرکت ہے وه اللہ تعالیٰ جس نے اپنے بندے پر فرقان اتارا تاکہ وه تمام لوگوں کے لئے آگاه کرنے والا بن جائے۔
قرآن طرز زندگی ہے، ایک دستور اور نظام حیات ہے، روئے زمین کے باشندوں کے لیے اللہ کا قانون وآئین ہے، اللہ نے فیصلہ کیا ہے کہ تمام انسان اسی آئین کو اپنا فیصل بنائیں ، اسی کے مطابق ایمان لائیں، اور مشرق یا مغرب کے لوگوں کی ذہنی آلودگیوں سے کنارہ کش رہیں، حاکمیت صرف ایک اللہ کے لیے ہے، وہی منصفانہ فیصلہ کرنے والا حاکم ہے: (أَفَحُكْمَ ٱلْجَـٰهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ ٱللَّهِ حُكْماً لّقَوْمٍ يُوقِنُونَ) [المائدة:50]
ترجمہ: کیا یہ لوگ پھر سے جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں یقین رکھنے والے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ سے بہتر فیصلے اور حکم کرنے والا کون ہوسکتا ہے؟
اللہ پاک فرماتا ہے: (أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ ءامَنُواْ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُواْ إِلَى ٱلطَّـٰغُوتِ وَقَدْ أُمِرُواْ أَن يَكْفُرُواْ بِهِ وَيُرِيدُ ٱلشَّيْطَـٰنُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَـٰلاً بَعِيداً * وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْاْ إِلَىٰ مَا أَنزَلَ ٱللَّهُ وَإِلَى ٱلرَّسُولِ رَأَيْتَ ٱلْمُنَـٰفِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُوداً * فَكَيْفَ إِذَا أَصَـٰبَتْهُمْ مُّصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ثُمَّ جَاءوكَ يَحْلِفُونَ بِٱللَّهِ إِنْ أَرَدْنَا إِلاَّ إِحْسَاناً وَتَوْفِيقاً * أُولَـئِكَ ٱلَّذِينَ يَعْلَمُ ٱللَّهُ مَا فِى قُلُوبِهِمْ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ وَقُل لَّهُمْ فِى أَنفُسِهِمْ قَوْلاً بَلِيغاً) [النساء:60-63]
ترجمہ: کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا؟ جن کا دعویٰ تو یہ ہے کہ جو کچھ آپ پر اور جو کچھ آپ سے پہلے اتارا گیا ہے اس پر ان کا ایمان ہے، لیکن وه اپنے فیصلے غیر اللہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں حالانکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ شیطان کا انکار کریں، شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ انہیں بہکا کر دور ڈال دے*ان سے جب کبھی کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے نازل کرده کلام کی اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف آؤ تو آپ دیکھ لیں گے کہ یہ منافق آپ سے منھ پھیر کر رکے جاتے ہیں*پھر کیا بات ہے کہ جب ان پر ان کے کرتوت کے باعث کوئی مصیبت آپڑتی ہے تو پھر یہ آپ کے پاس آکر اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ ہمارا اراده تو صرف بھلائی اور میل ملاپ ہی کا تھا* یہ وه لوگ ہیں کہ ان کے دلوں کا بھید اللہ تعالیٰ پر بخوبی روشن ہے، آپ ان سے چشم پوشی کیجئے، انہیں نصیحت کرتے رہیئے اور انہیں وه بات کہئے! جو ان کے دلوں میں گھر کرنے والی ہو۔
یہاں تک کہ اللہ پاک نے فرمایا: (فَلاَ وَرَبّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِى أَنفُسِهِمْ حَرَجاً مّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلّمُواْ تَسْلِيماً) [النساء:65]
ترجمہ: قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں اور کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں۔
رسول کو حاکم ماننا ، رسول کے فیصلے سے راضی ہونا اور رسول کے فیصلے پر سر تسلیم خم کرنا ضروری ہے تاکہ ایمان مکمل ہوسکے، وگرنہ اللہ کی قسم ! لوگوں کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔
اے اللہ کے بندو! اے مسلمانو! اے روئے زمین کی قومو! اے وہ لوگو جنہیں سعادت وخوش بختی کی تلاش اور نجات کی امید وآرزو ہے، اللہ کی کتاب ہمارے سامنے ہے، یہ اس کا کلام ہے، اس کا نور، اس کی رحمت اور شفا ہے، جو شخص ہدایت کا طلب گار ہو اسے قرآن سے ہدایت حاصل کرنی چاہئے:
(إِنَّ هَـٰذَا ٱلْقُرْءانَ يِهْدِى لِلَّتِى هِىَ أَقْوَمُ وَيُبَشّرُ ٱلْمُؤْمِنِينَ ٱلَّذِينَ يَعْمَلُونَ ٱلصَّـٰلِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا) [الإسراء:9]
ترجمہ:یقیناً یہ قرآن وه راستہ دکھاتا ہے جو بہت ہی سیدھا ہے اور ایمان والوں کو جو نیک اعمال کرتے ہیں اس بات کی خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے۔
جو شخص مالداری وبے نیازی حاصل کرنا چاہتاہو اسے قرآن سے حاصل کرنا چاہئے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: (تمہارا ہر روز مسجد جا کر کتاب اللہ سے دو آیتیں سیکھ لینا، یا دو آیتیں پڑھ لیا، دو اونٹنیوں کے حصول سے بہتر ہے، اگر تین آیتیں سیکھے تو تین اونٹنیوں سے بہتر ہے۔ اگر چار آیتیں سیکھے تو چار اونٹنیوں سے بہتر ہے۔اسی طرح مزید آیتوں کی تعداد کے مطابق اونٹنیوں سے بہتر ہے!)۔ اے اللہ کے بندو! اللہ کی قسم ! یہی حقیقی منافع اور مالداری ہے۔
جو شخص دوہرا اجر وثواب حاصل کرنا چاہتا ہو اسے چاہئے کہ قرآن کی تلاوت کے ذریعہ حاصل کرے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (جس نے کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھا اسے اس کے بدلے ایک نیکی ملے گی،اور ایک نیکی دس گنا بڑھا دی جائے گی، میں نہیں کہتا ﴿المّ﴾ ایک حرف ہے، بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے)۔
جو شخص سفارش سے فیض یاب ہونا چاہتا ہو وہ قرآن کی سفارش حاصل کرے، رسول گرامی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ( قرآن اپنے پڑھنے والوں اور اس پر عمل کرنے والوں کے لیے سفارشی بن کر آئے گا، اس کی پیشوائی سورۃ البقرۃ وآل عمران کریں گی، یہ دونوں سورتیں اپنے پڑھنے والوں اور ان پر عمل کرنے والوں کا لڑ جھگڑ کر دفاع اور بچاؤ کریں گی)۔
جو شخص شفایابی حاصل کرنا چاہتا ہو اسے چاہئے کہ قرآن سے شفا حاصل کرے، اللہ پاک فرماتا ہے: (قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ ءامَنُواْ هُدًى وَشِفَاء وَٱلَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ فِى ءاذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى أُوْلَـئِكَ يُنَادَوْنَ مِن مَّكَانٍ بَعِيدٍ) [فصلت:44].
ترجمہ: آپ کہہ دیجئے! کہ یہ تو ایمان والوں کے لیے ہدایت و شفا ہے اور جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں تو (بہراپن اور) بوجھ ہے اور یہ ان پر اندھاپن ہے، یہ وه لوگ ہیں جو کسی بہت دور دراز جگہ سے پکارے جا رہے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ جو شخص ہر طرح کی خیر وبھلائی سے اپنے دامن مراد کو بھرنا چاہتاہو اسے چاہیے کہ قرآن کو مضبوطی سے تھام لے اور اس پر عمل کرے، اور جو شخص ہر طرح کی برائی سے دوچار ہونا چاہتا ہو تو قرآن سے روگردانی کر بیٹھے: (فَمَنِ ٱتَّبَعَ هُدَاىَ فَلاَ يَضِلُّ وَلاَ يَشْقَىٰ * وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِى فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكاً وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ ٱلْقِيـٰمَةِ أَعْمَىٰ * قَالَ رَبّ لِمَ حَشَرْتَنِى أَعْمَىٰ وَقَدْ كُنتُ بَصِيراً * قَالَ كَذٰلِكَ أَتَتْكَ ايَـٰتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذٰلِكَ ٱلْيَوْمَ تُنْسَىٰ) [طه:123-126].
ترجمہ: جو میری ہدایت کی پیروی کرے نہ تو وه بہکے گا نہ تکلیف میں پڑے گا * اور (ہاں) جو میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی، اور ہم اسے بروز قیامت اندھا کر کے اٹھائیں گے*وه کہے گا کہ الٰہی! مجھے تو نے اندھا بنا کر کیوں اٹھایا؟ حالانکہ میں تو دیکھتا بھالتا تھا * (جواب ملے گا کہ) اسی طرح ہونا چاہئے تھا تو میری آئی ہوئی آیتوں کو بھول گیا تو آج تو بھی بھلا دیا جاتا ہے۔
اے وہ لوگو جنہیں یہ شکوہ رہتا ہے کہ گھر میں سکون وقرار نہیں، آپ قرآن کولازم پکڑیں، اے وہ لوگو جنہیں بے چینی اور وسوسوں کی شکایت ہے، آپ قرآن کو سینے سے لگالیں ، اے وہ لوگو جنہیں ایمانی کی کمزوری کا شکوہ ہے، آپ قرآن کو حرز جاں بنالیں۔
میرے دینی احباب ! قرآن سے اپنی رات کو آباد رکھیں، اس کے الفاظ سے شاد کام ہوں، اس کی پختہ اور محکم آیتوں پر غور وفکر کریں، تہجد گزاروں کے ساتھ قرآن کے ذریعہ تہجد گزاری کریں، قرآن اور نماز کے ساتھ اپنے نفس سے لڑنے پر صبر کریں، آپ کے سامنے رمضان آرہا ہے: (جو شخص رمضان میں ایماندار ہو کر حصول ثواب کے لیے رات کے وقت قیام کرے گا تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے) [بخاری ومسلم]
اے اللہ کے بندے! اس وقت کو لمبا نہ جانیں جب آپ اپنے مولا کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں، اپنی شہوت سے لڑتے رہیں، کیوں کہ اصل قیدی وہی ہے جواپنی خواہش کی بیڑی میں قید ہوجائے، حقیقی محروم وہ ہے جسے اس کا مولا خود سے دور کردے، اور (خواہشات نفس سے ) جہاد کرنا ہی کامیابی کا راستہ ہے۔
(وَٱلَّذِينَ جَـٰهَدُواْ فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ ٱللَّهَ لَمَعَ ٱلْمُحْسِنِينَ) [العنكبوت:69].
ترجمہ: جو لوگ ہماری راه میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں ہم انہیں اپنی راہیں ضرور دکھا دیں گے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ نیکو کاروں کا ساتھی ہے۔
اللہ اے ! ہم تیری مغفرت کے خواستگار ہیں اس بات پر کہ ہم لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں جبکہ ہمیں خود اس کی زیادہ ضرورت ہے، ہم دوسروں کو دوا بتاتے ہیں جبکہ ہم خود بیمار ہیں، ہم لوگوں کی قیادت کرتے ہیں جبکہ ہم خود قیادت کے محتاج ہیں، اے اللہ! تو ایسی زبان کو سزا نہ دے جس نے تیری طرف (بندوں کی) رہنمائی کی، اور نہ ایسے دل کو عذاب د ے جو تیری سزا کے خوف سے معمور ہے، اے کریم ! ہمارے اوپر اپنے فضل وکرم اور شفقت ومود ت کی سخاوت فرما ۔اللہمّ آمین

 

 
  • مقالات ورسائل
  • الصفحة الرئيسية